جمعرات، 1 مئی، 2014

Load Shedding لوڈ شیڈنگ سے چند اسباق



لوڈ شیڈنگ  ۔۔۔   لوڈ شیڈنگ ۔۔۔   لوڈ شیڈنگ
آج ہر طرف بجلی کی  لوڈ شیڈنگ کا رونا ہے۔
گرمی بڑھنے  کے ساتھ ساتھ بجلی  کی  لوڈ شیڈنگ اور بڑھتی جا رہی ہے جو کہ ہر عام و خاص کے لئے  نا قابلَ برداشت ہے۔
لوڈ شیڈنگ کی وجہ کر کاروباری طبقے اور صنعتکاروں کومشکلات کا سامنا ہے۔ اِس وجہ کر  مالی نقصانات یا منافعے میں کمی  کسی کیلئے بھی قابلِ قبول نہیں۔
طویل لوڈ شیڈنگ  سے  جہاں زیادہ تر  کاروبار متاثر ہے وہاں جنریٹرز، یو پی ایس اور ایمرجینسی لائٹس وغیرہ کے کاروبار عروج  پہ ہے۔ ایسے میں کاروباری حضرات لوڈشیڈنگ کی لعنت سے نجات دلانے کا خواب دکھا کر زیادہ سے زیادہ مال بناتے ہیں۔ اور ہماری بجلی پر انحصاراتنی بڑھ گئی ہے کہ ہم ایسی کسی بھی مصنوعات کو ہر قیمت پہ خریدنے کیلئے تیار ہیں جو ہمیں  لوڈشیڈنگ  کے دوران آسانی سے بجلی فراہم کر سکے۔ لیکن پھر بھی بجلی کی کمی پوری نہیں ہوتی۔ 
آج قریب ہر گھر میں جنریٹرز، یو پی ایس ، ایمرجنسی لائٹس وغیرہ موجود ہے۔
ایمرجنسی لائٹس یا یو پی ایس کو ہم  بجلی کی پاور پلگ سے لگائے رکھتے ہیں تاکہ  بجلی رہنے کے دوران چارج ہوتا رہے اور اگرچہ ہمیں اس دوران اہم کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آتا  لیکن جوں ہی بجلی جاتی ہے  اور ایک لمحے کیلئے تاریکی ہوتے ہی جب یہ ایمرجینسی لائٹس خود بخود جل اُٹھتا ہے تب ہمیں اسکی افادیت کا پتہ چلتا ہے۔  اگر اسے پلگ نہ کیا گیا ہو یا یہ چارج نہ ہوا ہو تو یہ ایمرجینسی لائٹس اپنا مقصد پورا نہیں کرے گا اور ہمیں لوڈشیڈنگ کے دوران اندھرے میں رہنا ہوگا۔
 یہ اندھیرا تو عارضی ہے اور اسے روشن کرنے کیلئے  ہمارے پاس ایمرجنسی لائٹس‘ یو پی ایس اور جنریٹرز اغیرہ  ہیں ۔۔۔  لیکن ایک دن ہماری زندگی کی روشنی بھی گُل ہو جائے  گی اور ہم قبر کے اندھرے میں داخل کر دیئے جائیں گے تو کون سی ایمرجنسی لائٹ ہم جلائیں گیں ؟
ہم سب جانتے ہیں:
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ  سورة الأنبياء 35
ترجمہ : ہر جاندار موت کا مزہ چکھنے والا ہے              
اور ہمیں بھی موت آئے گی پھر ہم قبر میں کون سی ایمرجنسی لائٹس یا یو پی ایس سے کام لیں گیں؟ آج ہم چند گھنٹوں کے اندھرے اور گرمی برداشت نہیں کر سکتے تو ہم کس طرح قبر کے اندھیروں اور گرمی  یا پھر یومِ حساب کی گرمی کو برداشت کرنے کے قابل ہو جائیں گا؟
آج  بجلی  کی  لوڈ شیڈنگ  کی وجہ سے لمحہ بھر  بھی ہم اندھرے اور گرمی میں رہنے کو یا  کویٴ بھی مالی نقصان  برداشت کرنے کو تیار نہیں لیکن طرح طرح کی گناہوں کی وجہ سے ہمارے دلوں میں جو لوڈ شیڈنگ ہوتا رہتا ہے جس کا نقصان دنیا کی اس نقصان سے کہیں زیادہ ہے اور جو ہماری ابدی زندگی پر اثر انداز ہوگا۔۔۔ اُسے کیسے  آرام سے برداشت کئیے بیٹھے ہیں ؟
جب ہم ایمان والے ہیں تو ہمارے دل میں ایک ’ ایمانی  بیٹری ‘ یا  یو پی ایس موجود ہے جسے نماز‘ روزہ‘ حج و زکاۃ‘ صدقات‘ تلاوتِ و فہم قرآن‘ اللہ کا ذکر  وغیرہ  مختلف اعمالِ صالحہ اور اللہ والوں کی صحبت سے  پلگ کرکے چارج کرنے کی ضرورت ہے۔
ہماری روح پرواذ کر جاتے ہی ہمیں قبر کی اندھری کوٹھری میں رکھ دیا جائے گا تو ہماری  یہ ’ایمانی‘  بیٹری  یا  یو پی ایس جسے ہم  اچھے اعمال سے اپنی دنیاوی زندگی میں چارج کرتے ہیں‘ خود بخود  ( automatically ) ہماری قبر کی تاریکی کو روشن کرے گی اوریہ روشنی قیامت تک ہمیں آرام  و راحت ملنے کا باعث بنے گی اور پھر اسی روشنی کے سہارے‘ انشاء اللہ ہمارے جنت تک پہنچنے میں کامیاب ہونگیں۔
اگر ہم اعمالِ صالحہ کے ذریعے اپنی ایمانی بیٹری / ایمرجینسی لائٹس چارج نہ کیا اور گناہوں کی تاریکی میں ہی ہماری زندگی گزرتی رہی تو ہماری قبر تاریکی اور ذلت کی جگہ ہوجائے گی اور آخرت میں بھی ذلت و رسوایٴ کا باعث بنے گی۔  (اللہ ہمیں اپنی حفاظت میں رکھے۔آمین)۔
جس طرح دنیا کی تھوڑی دیر کی لوڈ شیڈنگ سے بچنے کیلئے ہم ہر قیمت پہ جنریٹرز، یو پی ایس اور ایمرجینسی لائٹس وغیرہ خرید لاتے ہیں‘ اسی طرح آخرت کی ہمیشہ زندگی میں ہمیشہ کی لوڈ شیڈنگ سے بچنے کیلئے سب سے پہلے ہر قیمت پر  ہم اپنا ایمان درشت کریں اور پھر اِسے چارج کرتے  رہیں۔ کیونکہ ہمیں معلوم ہے:
ایمان کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں کیا جاتا۔  ایمان اس یقین کی کیفیت کو کہتے ہیں جو دل میں پائی جاتی ہے اور قول  و  عمل سے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے۔ ایمان اللہ و رسول ﷺ کی فرمانبرداری سے بڑھتا ہے اور نافرمانی سے کم ہوتا ہے۔
قرآن میں تدبر و تفکر کرکے اپنے ایمان کا محاسبہ کرسکتیں ہیں جیسا کہ ہمارے رحمٰن و رحیم رب نے قرآن ہی میں ارشاد فرمایا ہے:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ﴿٢   سورة الأنفال
ترجمہ : بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتیں ہیں تو وه آیتیں ان کے ایمان کو اور زیاده کردیتی ہیں اور وه لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔
لہذا اگر قرآن پڑھنے‘ اس میں تدبر و تفکر کرنے سے ہمارا ایمان بڑھتا ہے تو ہم اپنے ایمان کو بڑھاتے ہوئے دیگر اعمالِ صالح کے ذریعے اِسے چارج کرنے کی فکر کریں اور اگر قرآن سے ہمارے ایمان میں کویٴ فرق نہیں پڑتا تو ہمیں پہلے اپنی ایمان کی لوڈ شیڈنگ دور کرنی چاہئے۔
ہم اپنی ایمان کا محاسبہ اس حدیث سے کرسکتے ہیں:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’ایمان کی ستر (70) سے زائد شاخیں ہیں۔ اس کی سب سے افضل شاخ  لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ  کہنا ہے اور سب سے ادنیٰ شاخ  راستے سے کسی تکلیف دہ چیز (کانٹا، پتھر، نجاست وغیرہ) کا ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘  (مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، 1 : 63، رقم : 58)
کیا آج ہمارا ایمان ادنیٰ درجہ کا بھی ہے کہ ہم راستے سے کسی تکلیف دہ چیز (کانٹا، پتھر، نجاست وغیرہ) کو ہٹاتے ہوں۔۔۔۔ یا ہم پڑوسی کے دروازے پہ اپنا کچڑا ڈالنے والوں میں ہیں۔
کیا ہم ’ حیا ‘ کرتے ہیں ؟
کیا ہم  اپنے خالق‘ مالک‘ رازق‘ ربِ کریم کی نافرمانی کرنے میں کچھ  حیا  محسوس کرتے ہیں؟ 
اگر ہم اپنے رب کریم کی نافرمانی کرنے میں حیا کریں تو ہمارا ایمان کا چارج بڑھے گا اور ہم اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرنے والے بن جائیں گے۔ پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ بھی اپنی رحمتوں سے ہمیں جہنم کی لوڈ شیڈنگ سے نجات دیکر جنت میں اپنے انعام یافتہ بندوں کا  ساتھی بنا دے گا۔ جیسا کیونکہ ہمارے رب کریم کا وعدہ ہے:
وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَـٰئِكَ رَفِيقًا ﴿٦٩سورة النساء
ترجمہ : جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیا٫ اور صدیقین اور شہدا٫ اور صالحین کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں
اورجو اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کے بجائے ایمان کے  سوداگر     نام  نہاد    پیر ‘ فقیر‘علماء  و مشائخ کی اطاعت کرتے ہوئے اپنا ایمان ضائع کر دیں گے تو مرنے کے بعد انکی  زندگی میں ہمیشہ جہنم کی لوڈ شیڈنگ ہی لوڈ شیڈنگ ہوگی۔ جس کے بارے میں ارشاد ہے:
يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّـهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا ﴿٦٦ وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا ﴿٦٧ رَبَّنَا آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيرًا ﴿٦٨  سورة الأحزاب
ترجمہ : جس روز ان کے چہرے آگ پر الٹ پلٹ کیے جائیں گے اُس وقت وہ کہیں گے کہ "کاش ہم نے اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کی ہوتی" ۔ اور کہیں گے "اے رب ہمارے، ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہمیں راہِ راست سے بے راہ کر دیا۔ اے رب، ان کو دوہرا عذاب دے اور ان پر سخت لعنت کر"
آج کتنے لوگ ہیں جو دنیا کی اس وقتی لوڈ شیڈنگ سے بچنے کیلئے ناجائز بجلی کی کنکشن لئے ہوئے ہیں‘ ناجائز اور حرام کی کمایٴ سے اپنے گھروں میں جنیریٹر ‘ یو پی ایس اور ایمرجنسی لائٹس خرید کر لائے ہیں اور اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی ایدھن بنا رہے ہیں جبکہ
اللہ رب العزت نے ہمیں اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچانے کو کہا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّـهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ﴿٦   سورة التحريم
ترجمہ :اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا تے ہیں
آئیے آج ہم سب اپنی گناہوں سے توبہ کریں اور عہد کریں :
ہم اِس دنیا کی لوڈ شیڈنگ میں اندھرا اور گرمی برداشت کر لیں گے لیکن  ناجائز و حرام طریقے سے روشنی اور تھنڈک حاصل نہیں کریں گے اور نہ ہی اللہ اور رسول ﷺ کی نا فرمانی کریں گے تاکہ آخرت میں ہمارا رب  ہمیں  کامل  نور ( روشنی) عطا کر ے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّـهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُكَفِّرَ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّـهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ ۖ نُورُهُمْ يَسْعَىٰ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿٨  سورة التحريم
ترجمہ : اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو۔ قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناه دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ جس دن اللہ تعالیٰ نبی کو اور ایمان والوں کو جو ان کے ساتھ ہیں رسوا نہ کرے گا۔ ان کا نور ان کے سامنے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا۔ یہ دعائیں کرتے ہوں گے اے ہمارے رب ہمیں کامل نور عطا فرما اور ہمیں بخش دے یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے۔
رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اے ہمارے رب ہمیں کامل نور عطا فرما اور ہمیں بخش دے یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے۔
آمین یا رب العالمین۔
اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی  مُحَمَّدٍ  وَّ  عَلٰٓی  اٰلِ   مُحَمَّدٍ  کَمَا  صَلَّیْتَ  عَلٰٓی  اِبْرَاھِیْمَ  وَ عَلٰٓی  اٰلِ  اِبْرَاھِیْمَ  اِنَّکَ  حَمِیْدٌ  مَّجِیْدٌ
اَللّٰھُمَّ  بَارِکْ  عَلٰی  مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰٓی  اٰلِ  مُحَمَّدٍ  کَمَا  بَارَکْتَ  عَلٰٓی  اِبْرَاھِیْمَ  وَ عَلٰٓی  اٰلِ  اِبْرَاھِیْمَ  اِنَّکَ  حَمِیْدٌ  مَّجِیْدٌ


بدھ، 19 فروری، 2014

آخری سانس تک مومن


آخری سانس تک مومن



ہماری  زندگی  میں  ایسے  واقعات  کبھی  کبھی  ہو  جاتے  ہیں  کہ  بہت  زیادہ  محبت  کرنے  والوں  کے   درمیان  ایسی  نفرت  پیدا  ہو  جاتی  ہے  کہ  ہم ایک  دوسرے  کا چہرہ  دیکھنا  گوارہ  نہیں  کرتے۔

کسی کو ہم ساری زندگی ادب و احترام سے پکاریں‘ بے انتہا عزت و تکریم دیں‘ اچھے اچھے القاب سے نوازیں ‘ جی حضوری کریں لیکن پھر کسی موڑ پہ آکر کبھی  بھی  کسی بھی صورت میں ایک جھوٹی سی گالی دے دیں  ‘ جسے باپ کہتے تھے  اُسے ’’سالا ‘‘   کہہ دیں جسے  اُستاد  کہتے  تھے  اُسے  ’’ چور ‘‘  کہہ دیں۔

تو  یہ  ہماری  ساری  زندگی کی ادب و  احترام‘  عزت  و  تکریم  کو  خاک  میں  ملا نے  کے  لئے  کافی  ہو جاتی ہے۔

سارے  رشتے  بھی  اسی  ایک  گالی  سے  ختم  ہو  جاتی ہے ۔ ہمارے  دل   میں ایسی کدورت  جنم  لیتی  ہے  جسے  ہم زندگی  کی بقیہ  ایام میں بھلانا چاہیں بھی تو بھلا نہیں پاتے۔

بالکل  اسی  طرح  عقیدہ ٴ   توحید   کا   معاملہ  بھی   ہے۔

ایمان‘  اسلام‘  اخلاق   کے   تمام   تقاضے   اسی   عقیدہٴ    توحید   کے   گرد   گردش   کر تی    ہیں۔

ہم  سب  جانتے  ہیں کہ  ایمان   و   اسلام   کی   بنیاد  توحید   ہی   ہے۔

اس   بنیاد   میں  اگر  کسی بھی وقت فرق آگیا  اور یہ  عقیدہ  خدانخواستہ  مجروح  ہو  گیا  تو  پھر  زندگی  کی بقیہ  ایام میں

ایمان  و  اسلام‘  عبادت و  تقویٰ‘  صدقہ  و خیرات  سب  کے  سب  عند اللہ  ’’ نا معتبر ‘‘  قرار  پائے  گا۔

اسی  طرح  ہم  ایک  اچھے  شہری  ہو سکتے  ہیں‘  ہو  سکتا  ہے کہ پچھلے  بیس پچیس سالوں سے  ہم  اچھے  شہری  ہونے  کا  ثبوت  دیتے  آئیں  ہوں  لیکن  اسکے  باوجود  اگر  ہم  کہیں  ڈاکہ  ڈالنے  میں  ملوث  ہو  جائیں  یا   کسی  کو  عمداً  قتل  کر  دیں  تو  ہمارے  اچھے  شہری  ہونے  کا  پچھلا  ریکارڈ  ہمیں  مجرم  ہونے  سے  اور  سزا  پانے  سے  نہیں  بچا  سکے  گا۔

توحید  کا  معاملہ  بھی  ایسا  ہی  ہے۔

اگر  ہم  ساری  زندگی  اللہ  کی  وحدانیت  پر  قائم  ر ہیں  لیکن  موت کے  وقت‘  جس  وقت  شیطان  اپنی  آخری  داوٴ  چلنے  کی  حتی  المقدور  کوشش  کرتا  ہے  اگر  خدانخواستہ  انسان  کے  دل  میں  شکوک و شبہات  اور  انکار  کا  غلبہ  ہو  جائے  اور  وہ شرک و کفر  میں  پڑ  جائے  تو  جہنم  سے  نجات کی گنجائش کہاں سے نکلے گی۔

اسی لئے   مومن بندہ  ’’ امید  اور  خوف ‘‘  کے  درمیان  رہتا ہے یعنی جہاں وہ   اللہ  کی رحمت کی وسعت اور عظیم بخشش کو  دیکھتے  ہوئے  یہ  امید  اور  یقین  رکھتا  ہے  کہ  اللہ سبخانہ و تعالیٰ  اپنی رحمت‘   بخشش  و  کرم سے اسکی مغفرت کر کے اسے  اپنی  جنت  سے  نوازے  گا وہیں  وہ  اللہ  کی  بڑایٴ  و  کبریایٴ  اور اپنی  کوتاہی  و  معصیت  پہ  نظر  رکھتے  ہوئے  اللہ  کی  ناراضگی  اور  عذاب  کے  خوف  سے  بھی  ڈرتا   رہتا  ہے' اور  ڈر تا ہے  کہ  کہیں  اُسے  جہنم  میں  نہ  ڈال  دیا جائے۔

آج اس فتنے کے  دور میں‘  جب  ہر  لمحہ  ہم سب طرح  طرح کی معصیتوں میں ملوث ہیں‘  اللہ  جانے  کس کس  کا  ایمان  آخری  سانس  تک  باقی  رہے  گا۔  ہمیں  ڈرنا  چاہئے  کہ  خدانخواستہ  کسی  گناہ  کی  وجہ  کر  اللہ سبحانہ و تعالیٰ  ہمارے  دل  پھیر  نہ  دیں۔  کیونکہ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں آگاہ کیا ہے کہ  ہمارے  دل اللہ تعالیٰ  کی انگلیوں  کے  درمیان  ہیں۔  اللہ تعالیٰ  جیسے  چاہتا  ہے  انہیں  پھیر  دیتا  ہے۔  

مسلمان  گھرانے  میں  ہوتے  ہوےٴ  ہم  سب  ہی  قریب  بڑی  بڑی  گناہوں  کو  جانتے  ہیں  اور  ان  سے  بچنے  کی  بھی  حتی المقدور  کوششیں  کرتے  ہیں  لیکن  چھوٹی  چھوٹی  ایسی  بے شمار  باتیں  ہیں  جو  گناہ  و  معصیت  کے  زمرے  میں  آتیں  ہیں'   ہم  ان  کی  پرواہ  ہی  نہیں  کرتے  اور  یہی  چھوٹی  چھوٹی  گناہیں  ہمارے  دلوں  کو  زنگ  آلود  کرنے  میں  زیادہ  کردار  ادا  کرتا  ہے۔

لہذا  ہمیں  ہر  لمحہ ہر چھوٹی بڑی  گناہوں  سے  بچنے  کی  سعی  کرنی  چاہئے  اور اور ایمان  پر  بقاء  کے لئے  نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  کی سکھایٴ ہویٴ  یہ  دعا کثرت سے پڑھتے رہنا چاہئے:

يا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَي دِينِكَ

’’ اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔‘‘

اور جیسا کہ قرآن میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خود ہی ہمیں سکھایا ہے:

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ ﴿٨﴾ رَبَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ ﴿٩  سورة آل عمران

’’ اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کردے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت  عطا فرما،  یقیناً  تو  ہی بہت  بڑی عطا دینے واﻻ ہے۔ اے ہمارے رب!  تو  یقیناً  لوگوں کو ایک دن  جمع  کرنے  واﻻ  ہے  جس  کے  آنے  میں  کوئی  شک  نہیں،  یقیناً اللہ  تعالیٰ  وعده  خلافی  نہی ں کرتا۔‘‘

یقیناً   اس  میں  کویٴ  شک  نہیں  کہ  ہمارا  رب  اپنے  وعدے  کے  مطابق  ایک  دن  ہمیں  جمع  کرے  گا۔ لہذا  اگر آخری سانس تک ہم توحید باری تعالیٰ پہ توحید کے تقاضے کے مطابق قائم رہیں ‘  ہمارا ایمان سلامت رہے اور ہمارا خاتمہ باالخیر ہو' اور اللہ کی رحمت سے ہمیں موت کے وقت کلمہ نصیب ہو تب ہی ہم سرخرویٴ کے ساتھ اپنے رب سے ملنے کی آرزو کر سکتے ہیں۔

کیونکہ رحمت دو عالم  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

من مات علی شییٔ بعثہ اللہ علیہ (رواہ الحاکم)

’’ جس حالت میں آدمی فوت ہوگا، اسی پر اسے قیامت کے دن اٹھایا جائے گا‘‘

یعنی اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے اور انسان جس حالت میں زندگی بسر کرتا ہے، اسی حالت میں اس کی موت واقع ہوتی ہے اور جس حالت میں انسان کی موت واقع ہوگی، اسی حالت میں وہ قیامت کے دن قبر سے اٹھایا جائے گا۔

لہذا
        آج  ضروری ہے کہ ہم قرآن و سنت کے مطابق:

 اللہ پر ایمان لائیں یعنی توحید کو سمجھ لیں اور شرک سے دور ہو جائیں

سنتوں کو اپنا لیں اور بدعتوں کو چھوڑ دیں

نبی کریم  کے اعلیٰ اخلاق کو اپنا ئیں اور برے اخلاق کو ترک کر دیں

صلہ رحمی کریں اور قطعہ رحمی نہ کریں

نیکیاں  کر یں اور صغائر و کبائر معصیتوں کو ترک کر دیں                                                                

اور اپنا ظاہر و باطن پاک کریں

                                                     ۔۔۔۔۔   تب ہی ممکن ہے آخری سانس تک مومن رہنا

اے اللہ ہمیں ایسا بنا دے کہ

                                           ہم ہر لمحہ مومن رہیں

                                          ہم  امید اور خوف کے درمیان تجھ سے ڈرتے ہوئے زندگی گزاریں

                                          ہمارے تمام کام سنوار دے اور ہمارے اعمال کی اصلاح فرما دے

                                         اور اے اللہ  اپنے فضل و کرم سے ہمیں اچھا خاتمہ نصیب فرما

                                         بے شک تو سننے والا،قبول کرنے والا اور بہت قریب ہے۔

                                         آمین یا رب العالین۔


اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی  مُحَمَّدٍ  وَّ  عَلٰٓی  اٰلِ   مُحَمَّدٍ  کَمَا  صَلَّیْتَ  عَلٰٓی  اِبْرَاھِیْمَ  وَ عَلٰٓی  اٰلِ  اِبْرَاھِیْمَ  اِنَّکَ  حَمِیْدٌ  مَّجِیْدٌ


اَللّٰھُمَّ  بَارِکْ  عَلٰی  مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰٓی  اٰلِ  مُحَمَّدٍ  کَمَا  بَارَکْتَ  عَلٰٓی  اِبْرَاھِیْمَ  وَ عَلٰٓی  اٰلِ  اِبْرَاھِیْمَ  اِنَّکَ  حَمِیْدٌ  مَّجِیْدٌ